Jahan bhi jis say mili main kata phata Nikla
غزل
جہاں بھی جس سے ملی میں کٹا پھٹا نکلا
عذابِ جاں تو نہیں ہاں عذاب سا نکلا
جو ہنس رہا تھا سرِ بزم اک روانی سے
قریب اسکے گئی وہ بھی دل جلا نکلا
جسے میں صرف سمجھتی رہی یہاں جگنو
اسی کے جلنے سے منزل کا راستہ نکلا
مہک بہار کی چاروں طرف ہی پھیل گئی
تمہارا نام اچانک زباں سے کیا نکلا
تمام عمر میں جس کو تلاش کرتی رہی
ملا مجھے تو مرے من میں وہ چھپا نکلا
چمن میں کھلنے سے پہلے کلی جو مسلی گئی
جو درد اس نے سہا اس غزل میں آ نکلا
کسی کے وعدوں پہ اب کیا یقیں کرے انجم
جسے سمجھتی تھی اپنا وہ بے وفا نکلا
شہناز انجم
Shahnaz Anjum