جہاں میں فتنے اٹھاتی وبا کا دکھ ہے مجھے
سروں پہ ناچتی پھرتی قضا کا دکھ ہے مجھے
زمانے بھر کی نگاہوں میں تو مسیحا ہے
کسے خبر کہ تری ہی دوا کا دکھ ہے مجھے
مرے مزاج کے اپنے بھی کچھ تقاضے ہیں
یہ اور بات کہ خلقِ خدا کا دکھ ہے مجھے
بھرا نہیں ہے ابھی زخم بے وفائی کا
اک اور ٹوٹتے عہدِ وفا کا دکھ ہے مجھے
خبر نہیں ہے کہ یہ آگ بجھ بھی پائے گی
دلوں میں حشر اٹھاتی گھٹا کا دکھ ہے مجھے
کسی کو جھوم کے آتی بہار بھائے گی
مگر یہ آگ لگاتی صبا کا دکھ ہے مجھے
وہ جس کو مان تھا بے حد مری سخاوت پر
جو خالی لوٹ گیا اس گدا کا دکھ ہے مجھے
رجب وہ لوٹ تو آیا ہے میت بچپن کا
جو ایک عمر رہا اس خلاء کا دکھ ہے مجھے
رجب چودھری