جہاں پہ چھوڑی تھی بات دل کی، وہیں سے جاری ضرور کرتے
اگر وہ سنتا ہماری باتیں تو بات ساری ضرور کرتے
خدا سے فرصت نہیں ملے گی خدا کے بندوں کو آج ورنہ
خدا کے بندے خدا کی خاطر مدد ہماری ضرور کرتے
عذابِ دوزخ کا خوف بھی ہے، حصولِ جنت کا شوق بھی ہے
جو یہ نہ ہوتے تو دل سے پوجا یہ سب پجاری ضرور کرتے
اب اور ہمت نہیں ہے ہم میں، تمہاری چالوں سے تھک چکے ہیں
یقین تم پر ذرا بھی ہوتا تو پھر سے یاری ضرور کرتے
کسی نے پوچھا کہ آپ ہوتے، تو جان ہم پر نثار کرتے؟
دماغ میں تھا کبھی نہ کرتے، زباں پکاری: "ضرور کرتے”
لبوں کو سی کر، غموں کو پی کر بھرم محبت کا رکھ لیا ہے
وگرنہ لے لے کے نام تیرا ہم آہ و زاری ضرور کرتے
محمد رضا حیدری