جیت کے زعم میں سب ہار کے رکھ دیتا ہے
وہ محبت میں مجھے مار کے رکھ دیتا ہے
غیر مشروط نہیں ہوتی محبت اس کی
مسئلے پیار میں پندار کے رکھ دیتا ہے
سب کو مقتل میں تو لاتا ہے برابر پہلے
مرحلے پھر سر و دستار کے رکھ دیتا ہے
اور باقی نہ رہے جب کوئی شے بیچنے کو
سامنے مجھ کو خریدار کے رکھ دیتا ہے
غم ہو دنیا کا اگر کوئی نپٹ لوں ہنس کر
درد ِفرقت تو میاں مار کے رکھ دیتا ہے
کربِ تنہائی سے یوں رکھتا ہے محفوظ رضا
وہ مجھے درمیاں اغیار کے رکھ دیتا ہے
وہ ابھی کارِ جنوں سے نہیں واقف راجا
قاعدے عشق میں افکار کے رکھ دیتا ہے
احمدرضاراجا