جیسے رکھا ہو انگیٹھی پہ بھلکڑ نے کباب
جیسے صحرا کی آندھی میں جھلستا ہے گلاب
تم نے دیکھی ہے ریالوں کی کمائی لیکن
تم نے دیکھا نہیں پردیس کی عیدوں کا عذاب
ہائے وہ چاند وطن میں جو نظر آتا ہے
بوڑھے چہروں پہ پلٹتا ہوا دیکھا ہے شباب
دوڑتے پھرتے ہیں آنگن میں ہمارے بچے
جس طرح گھوڑا بدکتا ہے بِنا زین و رکاب
رات تٙو مہندی سُکھانے میں گذر جاتی ہے
صبح لاتی ہے وہ خوشیاں کہ نہیں جنکا حساب
جو مقامی ہیں گٙلے مِلتے ہوئے جب دیکھوں
لوگ کہتے ہیں تری آنکھ ہے یا موج ِچناب
اپنی مٹی کی تٙو خُشبو تھی حقیقی عامر
ورنہ پردیس میری آنکھ کا دھوکا تھا جناب
(رحمت اللہ عامر)