غزل
جینے کی تمنا بھی مرنے کی ادا ٹھہری
ہم اہل محبت کو کیا شرط وفا ٹھہری
لمحوں کے تعاقب میں ہر در سے گزرتی ہے
یہ گردش دوراں بھی کشکول گدا ٹھہری
شیشے کے مکانوں میں پتھر کے صنم دیکھے
شعلوں کی جبینوں پر شبنم کی ادا ٹھہری
سورج کی تمازت سے پگھلے ہیں بھرم کیا کیا
اک موم کی پرچھائیں پھولوں کی قبا ٹھہری
معنی کے سمندر میں الفاظ برہنہ ہیں
ساحل سے حیا ہٹ کر ٹھہری تو بجا ٹھہری
فریاد ہو یا نغمہ اب کوئی نہیں سنتا
شاعر کی صدا فرحتؔ صحرا کی صدا ٹھہری
فرحت قادری