حدتِ غم سے شب و روز پگھلتا ہوا میں
عکس در عکس نئے درد میں ڈھلتا ہوا میں
ایسا لگتا ہے ، کسی آگ میں چھوڑ آیا ہوں
شور کرتا ہوں ، کہیں دور سے جلتا ہوا میں
سرد لہجوں کی تپش ایسے جلائے جیسے
برہنہ جسم لیے، برف پہ چلتا ہوا میں
اے دسمبر یہ بتا ۔۔! کس کے لیے لوٹا ہے
ایک سگریٹ تو ہوں اور دوسرا جلتا ہوا میں
اے خدا لوٹ نہ جائے کوئی آکر یوں بھی
ہجر میں وصل کی یاد، اور مچلتا ہوا میں
رات ڈھلنے کو ہے، اک اور ، ترے بعد بھی دیکھ
دن بھی دیکھوں گا کسی طور نکلتا ہوا ،میں
ایک وہ ہیں کہ ، سرِ بزم سراہے جائیں
اور کاشفؔ! کہ اُسی بزم کو کھلتا ہوا میں
کاشف علی ہاشمی