غزل
حدیث زندگی سنتے رہے ہیں
بڑی مدت سے سر دھنتے رہے ہیں
ہوئے ہیں پاش اک ضرب فنا سے
جو سپنے عمر بھر بنتے رہے ہیں
بھرا پھولوں سے تھا گلشن کا دامن
مگر ہم خار ہی چنتے رہے ہیں
رباب وقت نے چھیڑا ترانہ
جسے ہم ڈوب کر سنتے رہے ہیں
سر رہ ہر قدم بکھرے تھے کانٹے
جنہیں پلکوں سے ہم چنتے رہے ہیں
عروس شاعری تیرے لیے ہم
سخن کے پھول ہی چنتے رہے ہیں
سنا فیضؔ حزیں تیرا فسانہ
جو اہل دل تھے سر دھنتے رہے ہیں
فیض تبسم تونسوی