غزل
حرف اور صوت کی جاگیر پہ آئے ہوئے ہیں
میرا مطلب ہے در میرؔ پہ آئے ہوئے ہیں
جس قدر گھاؤ لگے ہیں تن خستہ پہ مرے
اتنے الزام بھی شمشیر پہ آئے ہوئے ہیں
اک عجب قید سے گزرے ہیں کہ زخموں کے نشاں
جسم تو جسم ہے زنجیر پہ آئے ہوئے ہیں
کیسے کرتا نہ بھلا اس کی محبت کا یقیں
نقش اس کے مری تصویر پہ آئے ہوئے ہیں
ندیم ناجد