حریمِ ذات کی ہر رت منائے میرے لیے
وہ روئے میرے لیے، مسکرائے میرے لیے
زمانہ اس کو ہمیشہ لگائے زخم پہ زخم
زمانہ اس کو ہمیشہ ستائے میرے لیے
میں شہر چھوڑ کے جانے کی جب بھی بات کروں
وہ ہاتھ جوڑ کے مجھ کو منائے میرے لیے
اسے کہو ہے محبت میں شرک کفرِ عظیم
وہ اپنا آپ بھی اب بھول جائے میرے لیے
قدم قدم پہ جلاتا رہوں لہو کے چراغ
قدم قدم پہ وہ مقتل سجائے میرے لیے
اسی کو شوق تھا سب سے مجھے ملانے کا
اب اپنی آنکھ کا کاجل بہائے میرے لیے
نعیم اس کو ضرورت مری کبھی نہ پڑے
وہ ملنے آئے مجھے تو بس آئے میرے لیے
(محمد نعیم جاوید نعیم)