حمدِ باری تعالیٰ
حریم ذات میں کیا کیا چھپانے بیٹھے ہو
نگر نگر میں تماشہ لگائے بیٹھے ہو
حصارِ زیست کے پیکر بنائے بیٹھے ہو
نفس نفس سے یہ دنیا بسانے بیٹھے ہو
مجھے خبر ہی نہ تھی کون مجھ میں رہتا ہے
کھلی جو انکھ تو دیکھا تم آئے بیٹھے ہو
جنوں کو دید کی لذت سے اشنا کرکے
تعینات کے پردے گرائے بیٹھے ہو
میں تم سے آن ملوں گا سفر نہیں مشکل
نفس نفس میں تو رستہ بنائے بیٹھے ہو
میں جب تلاش میں نکلا تو خود میں ہی پایا
تم اس وجود کو مسکن بنائے بیٹھے ہو
وہ اک وجود حقیقی ہے نام اجمد ہے
انہی کے عشق میں دنیا سجائے بیٹھے ہو
تجلیاں ہی تو عمران کو لبھاتی ہیں
تم اس کے من کو ہی درپن بنائے بیٹھے ہو
عمران احمد اویسی