حسرتیں اندر ہی اندر پیتے لوگ
جی رہے ہیں کس طرح گھٹ گھٹ کے لوگ
تو فلک کی وسعتوں میں رہنے والا
ہم زمیں کے مسئلوں میں الجھے لوگ
ایک ہے قاتل ادھر مقتول اِدھر
کیسے ہو سکتے ہیں یہ اک جیسے لوگ
کچھ اِدھر آئے اُدھر کچھ رہ گئے
دوریاں تو ہیں مگر ہیں اپنے لوگ
آ اُتر کر دیکھ دھرتی پر ذرا
جی رہے ہیں کس طرح مر مر کے لوگ
دیکھتا ہے شہر کا کب شہر یار
اپنے سر پر اپنی لاشیں دھرتے لوگ
اصل پر غالب بناوٹ آ گئی
بھائیں گے منصور کیا ہم جیسے لوگ
منصور سحر