غزل
حسن آنکھوں میں رہے دل میں جوانی تو رہے
زندگانی تیرے ہونے کی نشانی تو رہے
اس کی خاطر تو گوارا کوئی بن باس بھی ہے
سب کے ہونٹوں پہ مری رام کہانی تو رہے
ضبط میں یہ بھی ہے گویائی کا اپنا انداز
لب ہوں خاموش مگر اشک فشانی تو رہے
گر اجالوں سے گریزاں ہے دھندلکوں میں تو آ
دن بہ ہر طور کٹا شام سہانی تو رہے
تو نہ شیریں نہ میں فرہاد مگر یوں تو ملیں
ہم رہیں یا نہ رہیں اپنی کہانی تو رہے
آؤ کچھ دیر کریں پہلے پہل کی باتیں
یاد اس پیار کی وہ رسم پرانی تو رہے
تیری آنکھیں تو بنیں خشک جزیرے جعفرؔ
یہ جو دریا ہیں تو دریاؤں میں پانی تو رہے
جعفر شیرازی