غزل
حسن خود بیں کا اشارہ مجھے معلوم نہ تھا
ان کی آنکھوں میں ہے شکوہ مجھے معلوم نہ تھا
اب سوا مرثیۂ کم نگہی کیا کہئے
سامنے تھا مرے جلوہ مجھے معلوم نہ تھا
مجھ کو شکوہ نہیں کچھ آتش گل سے لیکن
آشیاں یوں بھی جلے گا مجھے معلوم نہ تھا
گم ہوئی گیسوئے جاناں کی سیاہی اس میں
اتنی تاریک ہے دنیا مجھے معلوم نہ تھا
خون دل جس کے لئے صرف کیا ہے میں نے
وہ ہے تاریک اجالا مجھے معلوم نہ تھا
دور تک نقش قدم ہے نہ نشان سجدہ
میں ہوں اس راہ میں تنہا مجھے معلوم نہ تھا
میں غم عہد تعلق کو بھلا بیٹھا تھا
دل کا ہر زخم ہے تازہ مجھے معلوم نہ تھا
دیکھ کر حسن کا اترا ہوا چہرہ گم ہوں
ان کا یہ حال بھی ہوگا مجھے معلوم نہ تھا
اور بھی کچھ در زنداں سے نکلتے ہی وفاؔ
سخت ہو جائے گا پہرہ مجھے معلوم نہ تھا
وفا ملک پوری