Huzoor Shah main dekho muqadroo ka safar
غزل
حضورِ شاہ میں دیکھو مقدّروں کا سفر.
یہیں سے ہوتا ہے جاری گداگروں کا سفر
ہےکس بلندی پہ فایز قلندروں کا سفر
کہ سر کو ہاتھ پہ رکّھے ہے بے سروں کا سفر
یہ سوچ کر ترے کوچے میں آن بیٹھا ہوں
یہیں پہ آ کے روُکےگا ستم گروں کا سفر
چلو کسی کی پرستش کی بات کرتے ہیں
چلو کہ ختم کریں اب مناظروں کا سفر
یہ تخت چھوڑ کے آ جا مری چٹای پر
کہ ہم نے دیکھا ہے تیرے سکندروں کا سفر
بتوں کی ساری خدای کو راز میں رکھنا
کہ بندگی میں ضروری ہے پتّھروں کا سفر
لہو لہو دلِ مضطر کو اب سنبھال ذرا
ٹھہر چکا ہے اُن آنکھوں میں خنجروں کا سفر
نصابِ شعر کی منزل بہت ہے دور مگر
"ضیاء” کو لے کے چلا ہے سخنوروں کا سفر
سید محمد ضیا علوی
Syed Mohammad Zia Alvi