حل کسی صورت نہ ہو میں ایسی الجھن چھوڑ کر
جا رہا ہوں تجھ کو دنیا میں سہاگن چھوڑ کر
کامیابی ہے یہ میری آ گیا ہے سامنے
باولا اس شہر کا اپنا بڑا پن چھوڑ کر
دل کے حجرے میں ہوئے آباد خوابوں کے مزار
ہے یہی حاصل مرا وہ در وہ چلمن چھوڑ کر
میری حالت دیکھ کر ہے چشم تر کیوں آئینہ
خار کیا رہتے نہیں ہیں خار گلشن چھوڑ کر
کچھ نہیں حاصل ہوا بس ہاتھ ملنے کے سوا
در بدر میں ہو گیا ہوں اپنا خرمن چھوڑ کر
سچ تو یہ ہے اپنے بچوں کی خوشی کے واسطے
آگئے بازار میں فنکار تک فن چھوڑ کر
زندگی دیتی ہے مجھ کو روز جینے کی سزا
کیسا مجرم ہو گیا ہوں گھر کا آنگن چھوڑ کر
جن کی خاطر ہم نے باندھے پیٹ پر پتھر وہی
وقت جب مشکل پڑا بھاگے اجیرن چھوڑ کر
اس طرف تھی کھائی اور تھیں اس طرف کچھ دلدلیں
عشق ورنہ کب میں جاتا تیری گردن چھوڑ کر
آہ آنسو ہچکیاں مانوس جب مجھ سے ہوئیں
آ گئی موجِ نسیمی اپنا مسکن چھوڑ کر
نسیم شیخ
Naseem Shaikh