حنوط سلسلے رکھے ہوئے خیالوں کے
عجائبات ہیں دل میں پری جمالوں کے
کہیں خموش کہیں گونجتے اندھیرے ہیں
بجھے چراغ ہیں ماتم کدے اجالوں کے
کہیں پہ آئنے حیرت کے انتظار میں ہیں
کہیں پہ سنگ بھی رکھے ہیں کچھ سوالوں کے
لپٹ کے روتی ہوئی چاندنی چٹانوں سے
کہ جن میں رکھے ہوئے خواب ہیں وہ جوالوں کے
عجب ہیں دھند کے منظر شجر اداس اداس
کہیں پہ موڑ ہیں ملنے بچھڑنے والوں کے
جاوید احمد