Hyrat say dekhty hain sabhi mery pyar ko
غزل
حیرت سے دیکھتے ہیں سبھی میرے پیار کو
میں نے غزل میں رکھ دیا دل کے غبار کو
اس نے تو پیار میں بھی لیا میرا امتحاں
چاہا تھا میں نے ٹوٹ کے جس جاں نثار کو
جس سر پہ ناز تھا ہمیں وہ سر ہی کٹ گیا
اب پوچھتا نہیں کوئی پھولوں کے ہار کو
سمجھوتہ کر نہ پایا میں اپنے ضمیر سے
خود اپنی جان دے کے بچایا وقار کو کچھ
کچھ دوستوں کے تِیر سے زخمی ہوا یہ دل
اور سَہہ لیا کلیجے نے دشمن کے وار کو
مرنے کے بعد دیر تک آنکھیں کُھلی رہیں
دیکھا نہیں ہے تُونے حدِ انتظار کو
کیا بات ہے نہ جانے قمرؔ کوئے یار میں
ملتا بہت سکوں ہے دلِ بے قرار کو
قمرِ عالم قمرؔ qamer alam qamer