loader image

MOJ E SUKHAN

حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے

حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے
سینہ میں اس کے ہر دم اک آگ سی بھری ہے

کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے
سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے

وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا
ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا

آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی
وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی

بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے
ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے

آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر
یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر

اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک
سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک

بجلی ہے یا بگولا۔ بھونچال ہے کہ آندھی
ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی

ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی
رہتی نہیں معطل۔ پھرتی ہے کام کرتی

پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں
ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں

ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی
پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی

برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں
ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں

ہم کہہ چکے مفصل۔ جو کچھ ہے کام اس کا
جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا

جی ہاں سمجھ گیا میں۔ پہلے ہی میں نے تاڑی
وہ دیکھو آگرہ سے آتی ہے ریل گاڑی

اسماعیل میرٹھی

Facebook
Twitter
WhatsApp