غزل
خامشی میں کبھی صداؤں میں
کھو گئی اجنبی فضاؤں میں
نہ سفر ہے نہ ہے سکون مجھے
کیسی گردش ہے میرے پاؤں میں
چیختی ہے یہ تیرگی شب کی
چاند خاموش ہے گھٹاؤں میں
کیا ہے جو خاک پر نہیں موجود
ڈھونڈتے ہیں کسے خلاؤں میں
سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتی ہوں
کس قدر زہر ہے ہواؤں میں
اے غم ہجر بخشنے والے
یاد رکھنا ہمیں دعاؤں میں
دل پریشاں ہے اس طرح تاراؔ
ہو گئی مرگ جیسے گاؤں میں
طاہرہ جبین تارا