خامشی کی نگاہ میں رہئیے
زندگی کی نگاہ میں رہئیے
مل ہی جاٸے گی روشنی اک دن
تیرگی کی نگاہ میں رہٸیے
جانے کب ہو قبولیت کی گھڑی
عاشقی کی نگاہ میں رہٸیے
بس میں کرنا ہے گر یہ عالمِ حسن
بے بسی کی نگاہ میں رہٸیے
جانتی ہوں ! تُو فکر کا ہے دھنی
آگہی کی نگاہ میں رہٸیے
ہے یہی تیرا حسن اے لڑکی
سادگی کی نگاہ میں رہٸیے
آدمیت کا پہلا زینہ ہے
آدمی کی نگاہ میں رہٸیے
عاجزی چاہتی ہو گر تم بھی
سرکشی کی نگاہ میں رہٸیے
مدیحہ شوق