Khamoosh Hoyee Ham tu lahoo bool Para
غزل
خاموش ہوئے ہم تو لہو بول پڑا ہے
سب بولنے والوں کا گرو بول پڑا ہے
میں سوچ رہا تھا کہ عدو ٹوٹ نہ جائے
میں دیکھ رہا ہوں کہ عدو بول پڑا ہے
زنجیر کی آواز تو دم توڑ گئی تھی
دامانِ عدالت کا رفو بول پڑا ہے
ہم کو تو کبھی خیر یہ دعویٰ ہی نہیں تھا
جس جس کو بھی تھی ضبط کی خو بول پڑا ہے
رندوں سے چھناکے کا سبب پوچھ تو ساقی
دل ٹوٹ گیا ہے کہ سبو بول پڑا ہے
راحیلؔ تری بات پہ حیرت نہیں ہم کو
اس بات پہ حیرت ہے کہ تو بول پڑا ہے
راحیل فاروق