ختم ہر اچھا برا ہو جائے گا
ایک دن سب کچھ فنا ہو جائے گا
۔
کیا پتا تھا دیکھنا اس کی طرف
حادثہ اتنا بڑا ہو جائے گا
۔
مدتوں سے بند دروازہ کوئی
دستکیں دینے سے وا ہو جائے گا
۔
ہے ابھی تک اس کے آنے کا یقین
جیسے کوئی معجزہ ہو جائے گا
۔
مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے
اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا
۔
کاش ہو جاؤ مرے ہمراہ تم
ورنہ کوئی دوسرا ہو جائے گا
۔
کل کا وعدہ اور اس بحران میں؟
جانے کل دنیا میں کیا ہو جائے گا
۔
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
ظلم جب حد سے سوا ہو جائے گا
۔
آپ کا کچھ بھی نہ جائے گا شعورؔ
ہم غریبوں کا بھلا ہو جائے گا
انور شعور