غزل
خدا تھا منتظر اک آدمی کا
یہ قصہ ہے کسی روشن صدی کا
ملے جلتا ہوا گھر جب کسی کا
تو لکھنا مرثیہ تم روشنی کا
جو ممکن ہو تو زندہ رکھنا رشتہ
انا کا اور نیزے کی انی کا
کہیں خوشبو نفس کی اڑ نہ جائے
لفافہ بند رکھنا زندگی کا
شریف شہر سمجھے گا بھی کیسے
مزہ ہم جیسوں کی آوارگی کا
قیس رامپوری