خدا کی راہ میں قربان کی ہے زندگی میں نے
یہ وہ غم ہے کہ اس غم پر لٹائی ہر خوشی میں نے
ہواؤں میں جلایا ہے چراغ زندگی میں نے
چراغ زندگی کو دل سے دی ہے روشنی میں نے
ابھی کھینچنے نہ پائی تھی کہ صہبا تاک لی میں نے
کوئی پینے نہ پایا تھا کہ پی اور خوب پی میں نے
وہی تشبیہ دی تو نے وہی تشبیہ دی میں نے
رہے گا ذات میں کیا جب صفت ہی چھین لی میں نے
سمجھتا ہوں تجھے دیکھا تجھے پوجا خبر کیا تھی
ترے آئینے میں اپنی ہی صورت دیکھ لی میں نے
مرے مسلک میں خود کو بھولنا حق کو بھلانا ہے
خدا دانی کو پایا معنی خود آگہی میں نے
مرے پیش نظر آئینہ خانے کی حقیقت ہے
ہزاروں اور لاکھوں میں بھی دیکھا ایک ہی میں نے
یہ عکس و آئینہ ذی صورت و صورت کی وحدت بھی
سمجھنے اور سمجھانے کی باتیں جو ہیں کی میں نے
حریم کبریا میں باریابی ان کو کیا ہوگی
حریم دل میں دیکھی ہے دلوں کی نارسی میں نے
ذہین شاہ تاجی