خرد سے گر نہیں بنتی جنوں کے پاس گزار
حیات ایسے نہ اے دوست محوِ یاس گزار
ترے لبوں کی ہنسی سے ہرے بھرے ہیں سبھی
یہ تیرے چاہنے والے ترے سپاس گزار
وفا سرشت ہیں تھوڑا بھرم ہمارا بھی!
ہیں دست بستہ ستادہ ہم التماس گزار
مرے نصیب میں گر ہے یہ لذتِ گریہ
مقامِ صبر سے میری یہ کُل اساس گزار
ہمارے ریشوں سے ریشے ملا رہا ہے تو سن
وفا کی بھٹی سے اپنی یہ سب کپاس گزار
جہانِ روح میں ظلمت نہ پھیل جائے کہیں
سو چند روزہ کو ایسے نہ کج لباس گزار
ہم ایسے خانہ بدوشوں کا کون ہوتا ہے
ہمارے ساتھ بھی کچھ پل اے غم شناس گزار
ثمر خانہ بدوشؔ