خطائے عشق یہ تسلیم ہے کہ ہم سے ہوئی
یہ جرأت ہم کو مگر آپ کے کرم سے ہوئی
جہان عشق میں اہل جنوں بھی کم تو نہ تھے
ہوئی شناخت اس اقلیم کی تو ہم سے ہوئی
قتیل عشق کیا پھر گلے لگائے رہا
کہ ابتدائے محبت بھی اک ستم سے ہوئی
مجھے تو جاننے والے بھی کم ہی جانتے ہیں
مری شناخت سر ملک فن قلم سے ہوئی
جو بحر عشق میں غرقاب ہو گئے ان کی
خبر ہوئی ہے تو لہروں کے زیر و بم سے ہوئی
دلوں میں عشق کی شمعوں کی روشنی دو چند
اگر ہوئی ہے عیاں آپ ہی کے دم سے ہوئی
رشیدہ عیاں