خطا کی اے دل ناداں خطا کی
تمنا کی تو کس نا آشنا کی
خدا کی شان یہ قسمت حنا کی
بنی مشاطہ اس کے دست و پا کی
بتا کر شوخیاں اس کو ادا کی
ڈبوئی ہم نے قسمت مدعا کی
بیاں سن کر مرا جلتے ہیں شاہد
زباں میں میری گرمی ہے بلا کی
فراق یار سے گھٹنے لگا دم
دہائی ہے دہائی ہے خدا کی
مرا وعدہ رقیبوں سے وفا ہو
ہوئی تاثیر کیا الٹی دعا کی
کئی دن سے وہ گھبرائے ہوئے ہیں
رسائی کچھ ہوئی آہ رسا کی
نہ کہتے مدعا نخوت نہ ہوتی
یہ خوبی ہے ہماری التجا کی
ہوئے ہم خاک بھی اس رہ گزر میں
رہی حسرت ہی وصل نقش پا کی
وقار التجا بھی ہم نے کھویا
عبث جا جا کے ان سے التجا کی
امیدیں اپنی سب قایم رہیں گی
اگر وہ ہیں خدائی میں خدا کی
یہاں تو ہو چکی راقمؔ ملاقات
توقع باقی ہے روز جزا کی
راقم دہلوی