خلوص و جذبے دل نذر عقیدت لے کے آئے ہیں
گناہ گار محبت ہیں محبت لے کے آے ہیں
درِ رحمت پہ حاضر ہیں تمہارے چاہنے والے
بڑی حسرت سے امید شفاعت لے کے آئے ہیں
یہی بس چند آنسو ہیں یہی بس چند آہیں ہیں
ملی ہے جو زمانے سے وہ دولت لے کے آے ہیں
مجھے بھی صبر کی طاقت عطا ہو یا رسول اللہ
سنا ہے آپ دکھیوں کی ضمانت لے کے آے ہیں
پڑھو اب طرز وہ مطلع کہ جس سے روشنی پھیلے
محبت وہ بھی کر بیٹھیں جو نفرت لے کے آے ہیں
ہے جس پر ناز عالم کو وہ رحمت لے کے آئے ہیں
محمد حق سے اقرار شفاعت لے کے آئے ہیں
لباس فقر ہے تن پر مگر قدموں میں ہے شاہی
نرالے ڈھنگ کی شان حکومت کے کے آئے ہیں
ہزاروں کی پرستش محو کردی ایک سجدے میں
عجب انداز کی طرز عبادت کے کے آئے ہیں
اجالا حشر تک اس کے سوا کچھ بھی نہ پھیلے گا
محمد آخری شمع نبوت لے کے آئے ہیں
گنیش بہاری طرز