غزل
خموش کیوں ہیں نظاروں کو دیکھنے والے
بہک نہ جائیں اشاروں کو دیکھنے والے
نگاہ دل کی طرف بھی کبھی اٹھائی ہے
بہ یک نگاہ ہزاروں کو دیکھنے والے
نگاہ کوئی خزاں کے لئے بھی ہے کہ نہیں
چمن میں صرف بہاروں کو دیکھنے والے
بڑھائے جاؤ قدم اپنا جانب منزل
بہت ہیں راہ گزاروں کو دیکھنے والے
زمیں پہ رہ کے زمیں کا کوئی خیال نہیں
فلک پہ چاند ستاروں کو دیکھنے والے
یہ کیوں جھجھک سے رہے ہیں یہ کیوں ٹھٹک سے گئے
گلوں کے سائے میں خاروں کو دیکھنے والے
سفینہ شورش طوفاں کی نذر ہو جاتا
نہ ڈوبتے جو کناروں کو دیکھنے والے
یہی ہے وقت کہ رخ موڑ دیں ہواؤں کا
کہاں ہیں وقت کے دھاروں کو دیکھنے والے
ہیں چند لوگ ابھی میکدے میں اے ساقی
تری نظر کے اشاروں کو دیکھنے والے
جو میری آنکھ سے گر کر ہے زینت دامن
اسے بھی دیکھ ستاروں کو دیکھنے والے
جو بڑھ گئے وہی منزل نصیب تھے میکشؔ
پڑے ہوئے ہیں سہاروں کو دیکھنے والے
استاد عظمت حسین خان