خنجر ہے کوئی اور نہ تلوار پھرے ہے
نظروں میں وہی ابروئے خمدار پھرے ہے
اک شخص بظاہر یہاں بے بیکار پھرے ہے
آئینہ لیے کوچہء دلدار پھرے ہے
دیتے ہیں سنائی ہمیں بجتے ہوئے گھنگرو
کیا لے کے ہوا اب تری گفتار پھرے ہے
ہے کوئی پری رُو جو سرِ دشتِ غزالاں
پہنے تری پازیب کی جھنکار پھرے ہے
اک پل میں اِدھر ہے کوئی دم بھر میں اُدھر ہے
سایہ ہے، چھلاوہ ہے کہ دیوار پھرے ہے۔
آتا ہے تبھی وجد میں طاؤسِ چمن بھی
ہم رقص اگرصورتِ پرکار پھرے ہے
اک طائرِ جاں جسم کے پنجرے میں مقید
پابندِ وفا ہے جو گرفتار پھرے ہے
کل تک تھی اُسے بھی طلبِ آہوئے صحرا
اب خاک اڑاتا ہوا بے کار پھرے ہے
زخموں کی نئی فصل رگِ جاں پہ اگائیں
پھر دیکھیں بھلا کیسے خریدار پھرے ہے
میں قتل گہہِ زیست میں تنہا ہوں تو مجھ پر
خنجر کبھی نیزہ کبھی تلوار پھرے ہے
رکھا نہ کسی کام کا اس عشق نے خسروؔ
لگتا ہے رگوں میں کوئی آزار پھرے ہے
(فیروز ناطق خسروؔ)