خوابوں کی وادی میں گم بے فکری کی نیند
اماں کی گودی کی گرمی بچپن جیسی نیند
کانوں میں رس گھولا کرتے لوری کے وہ بول
نندیا پور کی سیر کرانے لے جاتی تھی نیند
ہلکی سی بھی آہٹ پر اب کھل جاتی ہے آنکھ
ورنہ ہو جاتی تھی اپنے گاؤں میں پوری نیند
جب تک ابا جیتے تھے میں لمبی تان کے سوتا
برسوں سے سویا کرتا ہوں اب میں آدھی نیند
جسم تھکن جب چاٹ رہی ہو ، یادوں میں در آئے
چھاؤں گھنیری زلفوں کی وہ دوپہری کی نیند
قل پڑھتے ہی رات کو سونے لگتے ہیں کچھ لوگ
ایسے بھی ہیں جو لاتے ہیں مول بزاری نیند
جس دن سوؤں گا میں خسرو پھیلا کر یہ پاؤں
پوری اُس دن کرلوں گا میں اوڑھے مٹی نیند
(فیروز ناطق خسروؔ)