غزل
خوابوں کے کسی موڑ پہ دیکھا سا لگے ہے
اپنا نہ سہی پھر بھی وہ اپنا سا لگے ہے
اے شدت گریہ کہیں دل ڈوب نہ جائے
یہ درد کا لمحہ مجھے دریا سا لگے ہے
جس موڑ پہ بچھڑے تھے ہمیشہ کے لیے ہم
دل ہے کہ اسی موڑ پہ ٹھہرا سا لگے ہے
آنکھوں میں بسی ہے کوئی کھوئی ہوئی خوشبو
جس پھول کو دیکھو وہی چہرا سا لگے ہے
برسوں سے کسی کے لیے روئے بھی نہیں ہم
کیوں زخم تمنا ہے کہ تازہ سا لگے ہے
تم ڈوبتے سورج کے لیے رؤو ہو قیصرؔ
کچھ دیر میں سایہ بھی بچھڑتا سا لگے ہے
قیصر الجعفری