خواب آثار
ابھی تو تم سے اپنی گفتگو کے تار باقی ہیں
ابھی آدھی ہے شب اور خواب کے آثار باقی ہیں
ابھی منزل طلب کے راستوں میں کھوئی کھوئی ہے
ابھی اک کہکشاں ہے بام پر جو سوئی سوئی ہے
مرادوں اور امنگوں کے کئی کوہسار باقی ہیں
ابھی آدھی ہے شب اور خواب کے آثار باقی ہیں
ہمارے اور تمھارے راستوں میں ایک آہٹ ہے
ذرا تھم کر سنو ،گزرے دنوں کی گنگناہٹ ہے
کھنک جاتی ہے پیالی چائے کی جب دل دھڑکتے ہیں
ابھی جزبوں کی سچی آب کا اظہار باقی ہے
ابھی آدھی ہے شب اور خواب کے آثار باقی ہیں
مکمل ہو گیا ہے ایک قصہ ، ایک باقی ہے
سفر آدھا کٹا ہے اور آدھا اب بھی باقی ہے
ابھی کن کی صدائیں آرہی ہیں، وجد باقی ہے
محبت کے انوکھے راز کی تکمیل باقی ہے
ہے قصہ مختصر کہ زیست کے اسرار باقی ہیں
ابھی آدھی ہے شب اور خواب کے آثار باقی ہیں
شائستہ مفتی