خواب جتنے تھے سبھی رات سے وابستہ تھے
اور یہ درد مری ذات سے وابستہ تھے
میں رہا عشق میں ناکام مگر شعر یہ سب
اس کی خاطر سے مدارات سے وابستہ تھے
جن کو ہر روپ میں ڈھلنے کا ہنر آتا ہے
جانے کیا لوگ تھے کس دھات سے وابستہ تھے
رنج و غم درد کے انبار مرے سینے پر
اے سخن فہم تری گھات سے وابستہ تھے
گھومتے پھرتے سماعت سے سماعت سچ ہے
جتنے قصے تھے مری مات سے وابستہ تھے
ہم نے ہر روپ میں خوش رنگ جنہیں دیکھا ہے
گل کے قصے اسی برسات سے وابستہ تھے
ہم نے اقبال یہاں جتنے بھی سامان کیے
وہ سبھی مہر و عنایات سے وابستہ تھے
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ