خواب سا تھا سجا ہوا جیسے
سامنے تھا دیا جلا جیسے
ما تمی تھا وفور اشکوں کا
کوئ آنکھوں میں تھا مرا جیسے
آنکھوں آنکھوں میں کہہ رہا تھا کیا
ایک انداز تھا نیا جیسے
دشت میں تھا یہ میرا پہلا قدم
عشق بھی تھا کوئ خلا جیسے
ایک امید تھی جو باقی تھی
رکھ گئ تھی ہوا دیا جیسے
میرے حصّے کی دھوپ سہتا تھا
پیڑ تھا وہ کوئ گھنا جیسے
خامشی تھی حسیں ترنم کی
راگ دل پر چھڑا ہوا جیسے
ترنم شبیر