خواب میں آ کے وہ ستانے لگے
بھولنے میں جنہیں زمانے لگے
لوٹنے والے پا گئے منزل
لٹنے والے سبھی ٹھکانے لگے
قربتوں کا جدید ہے انداز
دور سے ہاتھ سب ہلانے لگے
اپنی مجبوریاں بتائیں جب
دوستوں کو مرے بہانے لگے
زخم پل بھر میں جو لگا دل پر
اس کو بھرنے میں پھر زمانے لگے
دور روشن خیالی کا ہے مگر
ہم کو تاریک یہ زمانے لگے
دیس پر جان وارنا تھی جنہیں
جان وہ دیس سے چھڑانے لگے
ان کی محفل میں ہم نے رکھے قدم
اٹھ کے امبر مجید جانے لگے
عبدالمجید راجپوت امبر