غزل
خواب ہو خواب میں آتے ہو چلے جاتے ہو
دید کا جام لنڈھاتے ہو چلے جاتے ہو
کسی امید پہ دنیا میں مجھے زندہ رکھو
آتے ہو آس بندھاتے ہو چلے جاتے ہو
میری آنکھوں میں جو لاشہ ہے مرے خوابوں کا
اس پہ روتے ہو رلاتے ہو چلے جاتے ہو
قصۂ درد کسی طور نہ بھولے مجھ کو
روز آتے ہو سناتے ہو چلے جاتے ہو
کیوں مری آنکھوں میں ہر روز نئے آس کے پھول
دوستو آ کے کھلاتے ہو چلے جاتے ہو
میرے زخموں کے لیے لاؤ ناں مرہم بھی کبھی
ان پہ بس جشن مناتے ہو چلے جاتے ہو
راہ بھولے نہ کوئی دشت کا راہی طارقؔ
اس لیے دیپ جلاتے ہو چلے جاتے ہو
اقبال طارق