خود اپنے گھر میں ہیں اس طرح آج آئے ہوئے
کہ جیسے گھر میں کسی کے ہوں ہم بلائے ہوئے
کہ جیسے اب کوئی خورشید آ ہی جائے گا
ہیں اپنے گھر کے اندھیروں سے لو لگائے ہوئے
خدا کرے در و دیوار کان رکھتے ہوں
زمانہ گزرا ہے روداد غم سنائے ہوئے
ان آندھیوں میں نہ جانے کدھر سے آ جاؤ
میں جا رہا ہوں ہر اک سو دیا جلائے ہوئے
گراں گزرتی ہے اب شہر کی ہر اک آواز
سنا رہے ہیں وہ قصے جو ہیں سنائے ہوئے
ہو جیسے جرم محبت میں میری ناکامی
ہر اک سے رہتا ہوں نوریؔ نظر بچائے ہوئے
کرار نوری