غزل
ث
خود کو دیکھا ہے تو آئینے پریشاں سے لگے
وقت کٹتا رہا تھا عہد حضوری کہ فراق
زخم لگتے رہے چاہے کسی عنواں سے لگے
زندگی میرے اضافے مجھے واپس کر دے
جھاڑ دے خار جو ناحق ترے داماں سے لگے
کچھ تو تھی سادگی کچھ بے خبری بے ہنری
کچھ ہمیں عشق کے ہنگامے بھی آساں سے لگے
زیست ہم ہار کے بھی ہاتھ ملائیں تجھ سے
اپنے یہ حوصلے کتنے تجھے ارزاں سے لگے
احسان اکبر