خوشبو کو تو گل سےباہر جانا تھا
ورنہ ہوا کا چلنا ایک بہانا تھا
پھول رکھے تھے لوگوں نے گلدانوں میں
تتلی کو بھی کچھ دھوکا تو کھانا تھا
جاگ رہی تھی ساتھ مرے تنہائ بھی
قصہ مجھ کو ساری رات سنانا تھا
عمر یہ کیسے پوری کرتے لوگ یہاں
آنا تھا اک سانس کو ، اک کو جانا تھا
: جس نے اشک جلاے رات چراغوں میں
شاید کوئ پتھر دل پگھلانا تھا
اس منزل نے جلدی ہم کو تاک لیا
ورنہ ابھی رستے نے ہمیں بلانا تھا
صحرا دیکھ کے پلٹا، برسا وادی میں
شازیہ اکبر بادل بڑا سیانا تھا
شازیہ اکبر