خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں
مگر ہاں دل میں کچھ کچھ زیر و بم محسوس کرتا ہوں
.
محبت کی یہ نیرنگی بھی دنیا سے نرالی ہے
الم کوئی نہیں لیکن الم محسوس کرتا ہوں
.
مری نظروں میں اب باقی نہیں ہے ذوق کفر و دیں
میں اک مرکز پہ اب دیر و حرم محسوس کرتا ہوں
.
جو لطف زندگانی مل رہا تھا گھٹتا جاتا ہے
خلش جو دل میں رہتی تھی وہ کم محسوس کرتا ہوں
.
تمہارے ذکر پر کب منحصر ہے دل کی بیتابی
کسی کا ذکر ہو میں چشم نم محسوس کرتا ہوں
.
کبھی پاتا ہوں دل میں ایک حشر درد بیتابی
کبھی میں اپنے دل میں درد و غم محسوس کرتا ہوں
.
زباں پر میری شکوہ آ نہیں سکتا زمانے کا
کہ ہر عالم کو میں ان کا کرم محسوس کرتا ہوں
.
یہ دل میں ہے جو گھبراہٹ یہ آنکھوں میں ہے جو آنسو
اس احساں کو بھی بالائے کرم محسوس کرتا ہوں
.
خوشی کی مجھ کو اب بہزاد کچھ حاجت نہیں باقی
کہ غم کو بھی میں اب ان کا کرم محسوس کرتا ہوں
بہزاد لکھنوی