Khush Ho Gaya to Kia hay khafa ho gaya to kia
غزل
خوش ہو گیا تو کیا ہے خفا ہو گیا تو کیا
تو بندہء خدا ہے خدا ہو گیا تو کیا
تعمیل کرنے والے مرے زر خرید ہیں
میرے خلاف حکمِ سزا ہو گیا تو کیا
در پر ترے لگی ہے ملاقاتیوں کی بھیڑ
اک ملنے والا تجھ سے جدا ہو گیا تو کیا
ہم ہیں کھڑے ہوئے یہ پڑا ہے زمین پر
سایہ ہمارے قد سے بڑا ہو گیا تو کیا
پہلے بھی ہم نے کس کی کمی کا اثر لیا
راہی اب ایک اور خلا ہو گیا تو کیا
عظیم راہی
Azeem Rahi