MOJ E SUKHAN
No Record Found
کلرکوں کی سبھی میزوں پہ انورؔہر اک فائل مزے سے سو رہی ہے
اگرچہ کام سارے رک گئے ہیںمگر میٹنگ برابر ہو رہی ہے
انور مسعود
اب تک تمہارے جیسا سہارا نہیں ملا Ub Tak Tumhare Jaisa Sahara
کِھل رہا ہے زمینِ بنجر میں
ٹوٹی میز اور جلی کتابیں رہ جائیں گی
غبار درد سے سارا بدن اٹا نکلا
تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
عشق جھیلا ہے تو چہرہ زرد ہونا چاہئے
ہوا ہے سر میں سودا پھر کسی زلف پریشاں کا
تھکن سے چور ہوں لیکن رواں دواں ہوں میں
ہونکتے دشت میں اک غم کا سمندر دیکھو
آتش دلِ زار میں لگائی اس نے رباعی
تھا ہم سے بھی ربط یا کہ نہ تھا
جب سے وہ گئے ادھرنہیں یاد کیا رباعی
یہ حکم خدا کا کہ قطرہ مے کا نہ پیوں – Ye
مومن لازم ہے وضع مرغوب بنے
رباعیات حکیم عمر خیام نیشا پوری
کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں رباعی امیر مینائی
غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو رباعی امیر مینائی
باغوں میں جو قمریاں ہیں سب مٹی ہیں رباعی قلندر
سب ستارے لٹا دیۓ میں نے
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
اک چراغِ آرزو پھر سے جلانا ہے مجھے
عشق جب تک جان و دل کا رہنما ہوتا نہیں
رازداں ہم نے بنایا آپ کو
جرم الفت کی سزا دینے لگے
از رہِ التفات بنتی ہے
میں نے تو درد کو سینے میں چھپا رکھا ہے
سنو اے باوفا لڑکے
تمہاری خاطر نقاب اوڑھوں نہ گھر سے نکلوں
تیرے جانے سے کچھ نہیں بدلا
ہو نے سر جو بدلا ہے
ادھر ادھر کی نہ تم سنانا بچھڑنے والے بتا کے جانا
آجکل دل کا عجب حال ہوا ہے جاناں
جا ترے بس میں نہیں یار محبت کرنا
نظم ہونے لگی
سنو میں مان لوں کیسے تمہیں مجھ سے محبت ہے