Dar Badar Phirta hay aysay Khak say Bichra howa
غزل
دربدر پھرتا ہے ایسے خاک سے بچھڑا ہوا
جیسے تنکا ہو کوئی خاشاک سے بچھڑا ہوا
جانے کس کس کو وہ زخمی کر گیا دیکھو ذرا
تیر لفظوں کا لبِ سفاک سے بچھڑا ہوا
کس قدر لبریز ہے رنج و الم سے ہائے دل
ایک مٹی کا کھلونا چاک سے بچھڑا ہوا
وقت کی چوکھٹ پہ لے آتا ہے دریا کھینچ کر
ایک آنسو دیدہء نمناک سے بچھڑا ہوا
داغ پیشانی کا بن کر جاوداں ہے آج بھی
اک جنونِ کیفِ دل صد چاک سے بچھڑا ہوا
یہ خبر کب تھی رکھے گا بس ادھورا عمر بھر
ایک کاغذ قصہِ غم ناک سے بچھڑا ہوا
لے کہ آتا ہے کہانی میں ہزاروں موڑ یہ
ایک قطرہ ضبط کے ادراک سے بچھڑا ہوا
یوں اکیلا ہے تخیل دورِ پر آشوب میں
جیسے دریا ہو کوئی پیراک سے بچھڑا ہوا
جھوم کر آئیں بہاریں مہکی گلشن کی فضا
لوٹ آیا گویا وہ املاک سے بچھڑا ہوا
آکے ماتھے پر ٹکا فہمی ستارا ہو گیا
چاند پورا محورِ افلاک سے بچھڑا ہوا
فریدہ عالم فہمی
Fareeda Alam Fehmi