دردِ فراق جب سے مقدر میں آگیا
دل کا سفینہ اشک کے ساگر میں آگیا
اوڑھے ہوئے ردائے رفاقت، پیامِ ہجر
بن کر رفیقِ درد مرے گھر میں آگیا
افسانۂ حیات تلاشِ حیات میں
ساحل سے دور بیچ سمندر میں آگیا
پہلے کہیں سے عشق نے ڈھونڈا مِرا سراغ
اور اس کے بعد فکر کے محور میں آگیا
وہ ہو سکا کبھی نہ حقیقت سے آشنا
جو بھی فریبِ ذات کے چکر میں آگیا
باطل پرست لشکرِ باطل سے جاملے
جو حق پرست تھا وہ بَہتّر (72) میں آگیا
جب تیرگی لحد میں اترنے لگی صبا ؔ
عشقِ رسول نور کے پیکر میں آگیا
صبا عالم شاہ