غزل
درد دل کا عیاں نہیں ہوتا
ہم سے غم کا بیاں نہیں ہوتا
کیسے سمجھائیں اہل محفل کو
ہر جگہ امتحاں نہیں ہوتا
گزری باتوں کو یاد کرنے سے
وہ فسانہ بیاں نہیں ہوتا
غم زدوں کو تسلیاں دے کر
کوئی جانان جاں نہیں ہوتا
کہنے والے تو بات کہہ کے گئے
دل سے آنسو رواں نہیں ہوتا
بے بسی راہ کی قدم روکے
رہبری کا نشاں نہیں ہوتا
دکھ وہاں سے بھی ہم کو ملتے ہیں
جس جگہ سے گماں نہیں ہوتا
اس سے کیا غم بیاں کریں اپنا
سن کے جو مہرباں نہیں ہوتا
کیوں ستاتے ہو غم زدوں کو اداؔ
دل تمہارا تپاں نہیں ہوتا
بیگم سلطانہ ذاکر ادا