درد میں ڈوبی ہوئی اک داستاں کا اقتباس
اس کے چہرے پر لکھا ہے کس جہاں کا اقتباس
خود ہی آجانا دریچہ درد کا تم کھول کر
خود ہی لکھنا صفحہء دل پر زیاں کا اقتباس
ہجرتوں میں ہجر کا ساماں ہوا جب وہ ملا
نارسائی ہی رہی عمرِ رواں کا اقتباس
تھے کتاب زندگی پر نام دونوں کے لکھے
بن گیا وہ داستاں ، میں داستاں کا اقتباس
کر رہا ہے خود کو وہ منسوب میرے نام سے
لکھ رہا ہے عشق کے بارِ گراں کا اقتباس
میں لبِ ساحل کھڑا سنتا رہا موجوں کا شور
اور وہ لکھتا گیا میرے گماں کا اقتباس
اک سفینہ چاہتوں کا اس کی آنکھوں میں رواں
وقت کے صحرا میں ہے وہ سائباں کا اقتباس
اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کا عکاس ہے
اس کا آنچل ہے چمکتی کہکشاں کا اقتباس
رس بھری کی بات سن کر سوچتا ہی رہ گیا
ہے یہی حسنِ بیاں یا ہے بیاں کا اقتباس
وقت کی پرواز میں اڑتے رہیں گے ساتھ ساتھ
ہے یہ روحوں کا سفر تو پھر کہاں کا اقتباس
بن گیا ہوں میں بھی اپنے دور کا شاہیں مرادؔ
میری ہر پرواز میں ہے آسماں کا اقتباس
شفیق مراد