غزل
درد والے ہو تو پھر ایسا کرو
ساتھ کچھ ہمدرد بھی رکھا کرو
اپنا بیگانہ نہ تم دیکھا کرو
ہر کسی سے مصلحت برتا کرو
دوسروں کے درد کی چھوڑو میاں
پہلے اپنے درد کا چارہ کرو
گو بلندی ہو کہ پستی ہر جگہ
ذہن و دل دونوں کھلے رکھا کرو
اس قدر خاموشیاں اچھی نہیں
لوگ کیا سوچیں گے کچھ سوچا کرو
جس کو جو ہونا ہے ہو ہی جائے گا
کون کیوں کیسے ہے کم سوچا کرو
صاف دکھ جائیں گے چہرے کے نقوش
آئینہ نزدیک سے دیکھا کرو
ہم سفر ہوں گے تو بچھڑیں گے ضرور
اس لئے اک اک سفر تنہا کرو
ہر نفس عاصیؔ خدا کی دین ہے
ہر نفس اک چوکسی برتا کرو
پنڈت ودیا رتن عاصی