درونِ حرف اذیت بولتی ہے
ستم زد کی مصیبت بولتی ہے
میں جادوگر نہیں پر میرے اندر
سخن ور سی طبیعت بولتی ہے
سکھائے کوئی تو آدابِ محفل
یہ چشمِ نم سے رفعت بولتی ہے
چراغِ شب بجھا دو میرے بچو
لگے دستر پہ غربت بولتی ہے
فقط پھولوں ہی سے رونق نہیں ہے
یہ اک تتلی سے نکہت بولتی ہے
پلٹ کر دیس کو دیکھا نہیں پھر
کوئی کہتا تھا نفرت بولتی ہے
مہوش اشرف